کرونا وائرس کو ہرانے کی جستجو لے کر کرونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنے والا گلگت بلتستان کے علاقے چیلاس سے تعلق رکھنے والا نوجوان ڈاکٹر اپنی زندگی کی جنگ نہ جیت سکا اور کرونا وائرس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلا گیا۔
ڈاکٹر اسامہ بنیادی طور پر مانسہرہ کے تیمر خیل قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جن کی مادری زبان ہندکو ہے، تاہم ان کے آبا و اجداد کافی عرصہ قبل گلگت کے علاقے چیلاس آکر آباد ہوگئے تھے۔
ٹویٹر پر محکمہ صحت گلگت بلتستان کا ڈاکٹر اسامہ کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں کہنا تھا کہ ” نہایت ہی افسوس کے ساتھ محکمہ صحت گلگت بلتستان اس بات کی تصدیق کررہا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض جام شہادت نوش کر گئے ہیں ۔شہید کو قومی ہیرو کا درجہ دیا جائے گا”
دوسری جانب چیلاس کے ایک رہائشی کا خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہنا تھا کہ آج کے دن تک اسامہ کے اہل خانہ کو ان کے بیٹے کی زندگی اور موت کے حوالے سے کوئی خبر نہیں دی گئی تھی جبکہ سوشل میڈیا پر انکی موت کے خبریں گردش کر رہی تھیں۔ تاہم اسامہ کی موت کلینیکل لحاظ سے جمعہ کو ہی واقع ہو گئی تھی۔
مرحوم ڈاکٹر اسامہ کے گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ وہ بحیثیت ڈاکٹر سکریننگ کی ڈیوٹی پر مامور تھے جس کے دوران وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔ جس کے بعد انہیں آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ تاہم کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر اسامہ کو پہلا پاکستانی ڈاکٹر قرار دیا جا رہا ہے جو کرونا کے خلاف بحیثیت ڈاکٹر جاں بحق ہوا ہے۔
پروفیسر ایم اسماعیل نامی سوشل میڈیا صارف کا ڈاکٹر اسامہ کے لیے اعلی فوجی اعزاز کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہنا تھا کہ ” گلگت کے مرحوم ڈاکٹر اسامہ ریاض کو ملک کا سب بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیا جائے کیونکہ وہ ملک کے عوام کی دفاع کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہو گیا ہے”
ڈاکٹر اسامہ بنیادی طور پر مانسہرہ کے تیمر خیل قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جن کی مادری زبان ہندکو ہے، تاہم ان کے آبا و اجداد کافی عرصہ قبل گلگت کے علاقے چیلاس آکر آباد ہوگئے تھے۔
ٹویٹر پر محکمہ صحت گلگت بلتستان کا ڈاکٹر اسامہ کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں کہنا تھا کہ ” نہایت ہی افسوس کے ساتھ محکمہ صحت گلگت بلتستان اس بات کی تصدیق کررہا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض جام شہادت نوش کر گئے ہیں ۔شہید کو قومی ہیرو کا درجہ دیا جائے گا”
نہایت ہی افسوس کے ساتھ محکمہ صحت گلگت بلتستان اس بات کی تصدیق کررہا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض جام شہادت نوش کر گئے ہیں ۔شہید کو قومی ہیرو کا درجہ دیا جائے گا ۔۔— Information Department Gilgit-Baltistan (@IDGB_Official) March 22, 2020
*محکمہ اطلاعات گلگت بلتستان *
ڈاکٹر اسامہ ریاض جن کا تعلق گلگت کے علاقے چیلاس سے بتایا جاتا ہے ان کی تشویش ناک حالت اور بعدازاں موت کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں تاہم حکومتی یا ہسپتال کے ذرائع کی جانب سے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی تھی۔GB Government declares Dr. Usama a national hero.#CoronaWarriors #COVIDー19 @DailyMountainGB @QazafiSamar @pamirtimes @Dailyk2_GB pic.twitter.com/y85vYmXoc1— Information Department Gilgit-Baltistan (@IDGB_Official) March 22, 2020
دوسری جانب چیلاس کے ایک رہائشی کا خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہنا تھا کہ آج کے دن تک اسامہ کے اہل خانہ کو ان کے بیٹے کی زندگی اور موت کے حوالے سے کوئی خبر نہیں دی گئی تھی جبکہ سوشل میڈیا پر انکی موت کے خبریں گردش کر رہی تھیں۔ تاہم اسامہ کی موت کلینیکل لحاظ سے جمعہ کو ہی واقع ہو گئی تھی۔
مرحوم ڈاکٹر اسامہ کے گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ وہ بحیثیت ڈاکٹر سکریننگ کی ڈیوٹی پر مامور تھے جس کے دوران وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔ جس کے بعد انہیں آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ تاہم کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر اسامہ کو پہلا پاکستانی ڈاکٹر قرار دیا جا رہا ہے جو کرونا کے خلاف بحیثیت ڈاکٹر جاں بحق ہوا ہے۔
پروفیسر ایم اسماعیل نامی سوشل میڈیا صارف کا ڈاکٹر اسامہ کے لیے اعلی فوجی اعزاز کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہنا تھا کہ ” گلگت کے مرحوم ڈاکٹر اسامہ ریاض کو ملک کا سب بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیا جائے کیونکہ وہ ملک کے عوام کی دفاع کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہو گیا ہے”
گلگت کے مرحوم ڈاکٹر اسامہ ریاض کو ملک کا سب بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیا جائے کیونکہ وہ ملک کے عوام کی دفاع کا جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوگیا ہے۔— Prof.M.Ismail (@ProfMIsmail) March 22, 2020
ڈاکٹر اسامہ نے پرائمری کی تعلیم چیلاس کے گورنمنٹ سکول سے حاصل کی اور پھر گلگت سے میٹرک اور اسلام آباد کرلوٹ کے ایک کالج سے ایف ایس سی کرنے کے بعد قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپور سے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ ان کے والد محمد ریاض ڈپٹی ڈائریکٹر ایل جی آر ڈی ہیں۔
وہ چار بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر اور غیر شادی شدہ
یاد رہے دنیا کے 188 ممالک کی طرح پاکستان میں کرونا وائرس بے قابو ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان میں اب تک 600 سے زائد کرونا کے تصدیق شدہ کیسز رپورٹ اور 4 لوگ موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ جبکہ متعدد مشتبہ مریضوں کی اب بھی سکریننگ اور ٹیسٹ جاری ہیں۔
Post a Comment